کچہری میں قائم جناح پارک میں جنسی درندے گھس آئے جس بعد پارک میں آنے والی خواتین بشمول نوجوان لڑکیوں کی عزتیں غیر محفوظ ہو گئیں
جبکہ حیران کن طور پر پارک کے CSO،جوکہ ایک ریٹائرڈ کرنل ہیں، اور گارڈز کی فوج ظفر موج ستو پی کر سو رہی
گزشتہ روز صبع 8:43 پر پارک میں پنجاب کالج مورگاہ موڑ و NUST اسلام آباد کی آٹھ عدد نوجوان طالبات آئیں
سب طالبات Bowling Club سامنے لگے بینچز پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگیں کہ پھانسی گھاٹ قریب بنے ٹریک پر دو نوجوان لڑکے (ایک براؤن شلوار قمیض/دوسرا ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس) آئے اور شلوار قمیض والا زور سے چلایا “عائشہ”میں اس وقت جاگنگ ٹریک پر ان طالبات کے قریب سے گزر رہا تھا
میں سمجھا چونکہ یہ کلاس فیلوز ہیں یا ایک دوسرے کا جانتے اس لیے ہنسی مذاق کر رہے
اسی اثناء میں شلوار قمیض والے لڑکے نے اچانک اپنی شلوار اتاری اور قمیض کا دامن اٹھا کر سامنے بیٹھی طالبات کو اپنا عضو تناسل دکھانے لگا اور ساتھ ڈانس کرنے لگا اتنے میں میں نے ان کو آواز دی کہ رک جاؤ
میری آواز سنتے ہی دونوں لڑکے بھاگ کھڑے ہوئے
میں نے ان دونوں لفنگوں کا باہر جھنڈا چیچی جانب آؤٹ گیٹ تک پیچھا کیا مگر ہاتھ نہ آئے اور نہ ہی گیٹ پر موجود دو گارڈز نے انکو پکارا باوجود اس کے کہ میں چیخ رہا تھا انکو پکڑو واپس جب طالبات پاس گیا تو پوچھا عائشہ کون ہے تو ایک لڑکی بولی میں ہوں۔ میں نے سوال کیا آپکا نام کیوں لیا ؟ بولی ہم فرینڈز آپس میں ایک دوسرے کا نام لے رہی تھیں تو انہوں نے سن لیا اور ہوٹنگ شروع کر دی
میں واپس پارک کے CSO آفس گیا اور ان سپروائزر نوازش سے ریکویسٹ کی CCTV فوٹیج کی انہوں نے کہا آپریٹر بارہ بجے دن آتا تو مل جائے گی
آج جب دوبارہ رابطہ کیا تو سپروائزر بولا اگر پولیس آئے تو انکو CCTV ملے گی ورنہ نہیں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کالج کی طالبات معاشرتی ڈر و خوف وجہ سے پولیس پاس نہ جانا چاہتی ہوں تو ان جنسی درندوں کو کھلی چھٹی دی دے جائے تاکہ کل کہاں وہ پھر خواتین کو جنسی طور پر حراساں کریں؟
0 Comments